سوال: (۱) محرم کی دس تاریخ
کی تخصیص کے ساتھ دسترخوان وسیع کرنا یعنی غرباء و
مساکین یا اعزاء و اقارب کو کھانا کھلانا؛ جب کہ اس امر کے کرنے میں
کسی خلافِ شرع عمل کا دخل نہ ہو اور نیت صرف اللہ کی رضا اور
حصولِ ثواب ہو، تو کیا ایسا کرنا شرعًا جائز ہے ؟
(۲) کیا
خاص طور پہ محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرنے کی
کوئی فضیلت وارد ہوئی ہے ؟
الجواب: باسمہ تعالیٰ،
الجواب وباللہ التوفیق والعصمة:
(۱) دسویں محرم کو ثواب کی
نیت سے غریبوں ومساکین کو یا اعزہ واقربا کو کھانا کھلانے
کی کوئی فضیلت وارد نہیں ہوئی؛ ہاں وسعتِ رزق کی
امید سے اپنے اہلِ وعیال کے لیے دسترخوان وسیع کرنے کی
فضیلت وارد ہوئی ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص وسعت رزق کی
امید سے اپنے اہل وعیال کے لیے محرم کی دسویں تاریخ
کو دسترخوان وسیع کرتا ہے تو یہ جائز؛ بلکہ مستحسن و مندوب ہے۔
(۲) جی ہاں! بیہقی
کے ”شعب الایمان“ (رقم: ۳۵۱۵) میں، طبرانی
کے ”المعجم الکبیر“ (رقم ۱۰۰۰۷) میں ان
الفاظ کے ساتھ محرم کی دسویں تاریخ کو دسترخوان وسیع کرنے
کی فضیلت کے سلسلے میں حدیث وارد ہوئی ہے: من وسع علی عیالہ یوم
عاشوراء وسع اللہ علیہ في سائر سنتہ (شعب) لم یزل في سعة سائر سنتہ․ جو شخص عاشوراء کے دن اہل وعیال کے لیے وسعت
اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لیے وسعت کرے
گا۔ یہ حدیث فضائل کے باب میں قابلِ عمل ہے، متعدد محدثین
اور شراحِ حدیث نے اس کی تصریح کی ہے۔ علامہ سخاوی
رحمہ اللہ ”المقاصد الحسنہ“ میں لکھتے ہیں: حدیث
مَنْ وَسَّعَ عَلَی عِیَالِہِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ
وَسَّعَ اللہ عَلَیْہِ السَّنَةَ کُلَّھَا، الطبرانی فی الشعب
وفضائل الأوقات، وأبو الشیخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبی سعید،
والثانی فقط فی الشعب عن جابر وأبی ھریرة، وقال: إن أسانیدہ
کلھا ضعیفة، ولکن إذا ضم بعضھا إلی بعض أفاد قوة، بل قال العراقی
فی أمالیہ: لحدیث أبی ھریرة طرق، صحح بعضَھا ابن
ناصر الحافظ، وأوردہ ابن الجوزی فی الموضوعات من طریق سلیمان
ابن أبی عبد اللہ عنہ، وقال: سلیمان مجھول، وسلیمان ذکرہ ابن
حبان فی الثقات، فالحدیث حسن علی رأیہ، قال: ولہ طریق
عن جابر علی شرط مسلم، أخرجھا ابن عبد البر من روایة الزبیر
عنہ، وھی أصح طرقہ، ورواہ ھو والدارقطنی فی الأفراد بسند جید،
عن عمر موقوفا والبیہقی فی الشعب من جھة محمد بن المنتشر، قال:
کان یقال، فذکرہ، قال: وقد جمعت طرقہ فی جزء، قلت: واستدرک علیہ
شیخنا -رحمہ اللہ- کثیرا لم یذکرہ، وتعقب اعتماد ابن الجوزی
فی الموضوعات قول العقیلی فی ھیضم بن شداخ راوی
حدیث ابن مسعود: إنہ مجھول بقولہ: بل ذکرہ ابن حبان فی الثقات
والضعفاء (المقاصد الحسنة:۴/۶۷۵، ط: دار الکتاب العربي،
ط: بیروت) اور حافظ بن حجر نے ”الأمالي المطلقة“ میں اس حدیث پر تفصیلی
بحث کے ضمن میں فرمایا: ولہ شواھد عن جماعة من الصحابة․․․ منھم عبد
اللہ بن مسعود وعبد اللہ بن عمر وجابر وأبوھریرة وأشھرھا عبد اللہ بن مسعود
الخ (الأمالي المطلقة ۱۰/ ۲۸، ط: المکتب الإسلامي، بیروت) نیز دیکھیں: الیواقیت
الغالیة (۱/۲۰۷، ط: برطانیہ) وامداد الفتاوی
(۵/ ۲۸۹، ط: زکریا) وفتاوی دارالعلوم (۱۸/
۵۳۹) واحسن الفتاوی (۱/ ۳۹۵، ط:
زکریا)
فقط
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
محمد اسد اللہ غفرلہ، معین مفتی
الجواب صحیح: محمود حسن بلند شہری غفرلہ، محمد نعمان سیتاپوری
غفرلہ
مفتیانِ
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سوال: محرم کے دسویں دن جو رسمیں
ہوتی ہیں مثلاً شربت پلانا وغیرہ۔ اس کے متعلق علمائے دیوبند
کیا فرماتے ہیں؟ سنی لوگ یہ کہتے ہیں کہ فتاوی
رشیدیہ میں لکھا ہے کہ شربت پینا حرام ہے۔
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم،
حامدًا ومصلیا ومسلما، الجواب وباللہ التوفیق والعصمة
محرم کی دسویں تاریخ کو
سبیل لگانا، شربت یا دودھ وغیرہ پلانا شیعہ اور روافض کے
ساتھ تشبہ کی وجہ سے ناجائز ہے۔ فتاویٰ رشیدیہ
میں بھی یہی بات لکھی ہے، اس کے الفاظ یہ
ہے”محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنا اگر چہ بروایاتِ
صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا یا چندہ سبیل
اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نادرست اور تشبہ روافض کی
وجہ سے حرام ہیں“۔ (فتاویٰ رشیدیہ، ص:۱۳۹)
یہ بات اپنی جگہ پر بالکل درست ہے، اگر آپ کو اس میں کوئی
اشکال ہو تو تحریر کریں۔
محمد اسد اللہ غفرلہ
الجواب صحیح: زین الاسلام قاسمی الہ آبادی،
محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ
مفتیانِ
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
$$$
---------------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8-9، جلد:101 ،ذی
قعدہ-محرم 1438 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2017ء